غزل 1
تیری آنکھوں پہ مر مٹتے ہیں لوگ
یوں ہر کسی سے نظریں ملایا نہ کرو
آنکھیں روتیں ہیں شب و روز خون کے آنسو
یوں نظروں سے دور جایا نہ کرو
کیف و مستی ہے اِن کالی گھٹاؤں میں
یوں زلفوں کو اپنی لہرایا نہ کرو
لوگ متلاشی ہیں تیرے وصل کے
انہیں ہجر کی آگ میں جلایا نہ کرو
لوگ پوچھتے ہیں اِن سرخ آنکھوں کی وجہ
یوں خوابوں میں آ کر جھگایا نہ کرو
زمانہ بدنام نہ کر دے تجھے کہیں
محفلوں میں یوں ہمیں بلوایا نہ کرو
تیرا در کیا تیری دنیا ہی چھوڑ جاؤں گا
ایک بار تو کہو ؛مجھ کو ستایا نہ کرو
حبيب پہلے ہی قریب المرگ ہے
نظروں کے یوں تیر چلایا نہ کرو
بقلم حبیب اللہ
تیری آنکھوں پہ مر مٹتے ہیں لوگ
یوں ہر کسی سے نظریں ملایا نہ کرو
آنکھیں روتیں ہیں شب و روز خون کے آنسو
یوں نظروں سے دور جایا نہ کرو
کیف و مستی ہے اِن کالی گھٹاؤں میں
یوں زلفوں کو اپنی لہرایا نہ کرو
لوگ متلاشی ہیں تیرے وصل کے
انہیں ہجر کی آگ میں جلایا نہ کرو
لوگ پوچھتے ہیں اِن سرخ آنکھوں کی وجہ
یوں خوابوں میں آ کر جھگایا نہ کرو
زمانہ بدنام نہ کر دے تجھے کہیں
محفلوں میں یوں ہمیں بلوایا نہ کرو
تیرا در کیا تیری دنیا ہی چھوڑ جاؤں گا
ایک بار تو کہو ؛مجھ کو ستایا نہ کرو
حبيب پہلے ہی قریب المرگ ہے
نظروں کے یوں تیر چلایا نہ کرو
بقلم حبیب اللہ
1 Comments
Waddia likha ha
ReplyDelete